ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-05

ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے

core-values
رمضان المبارک کا پہلا دہا ختم ہورہا تھا شہر حیدرآباد کی ایک مسجد میں پہلے دہے کے اختتام پر سبھی لوگ حافظ صاحب کو ملکر مبارکباد دے رہے تھے آخر میں مسجد کی کمیٹی کے صدر صاحب نے حافظ صاحب کو کرسی پر بٹھاکر اُن کی گلپوشی کی پھر اُن کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا بند لفافہ اور کپڑوں کی تھیلی دی ۔ ابھی حافظ صاحب کی گلپوشی ختم بھی نہیں ہوئی کہ چند نوجوان آگے آئے انھوں نے پلاسٹک کی تھیلی میں سے ایک بڑا سا پھولوں کا ہار نکالا اور خود کمیٹی کے صدر صاحب کو پہنادیا ۔ یہاں تک تو سب کچھ معمول کی بات ہی لگتی تھی لیکن جب ہمیں اس بات کاپتہ چلا کہ پہلے دہے میں جس حافظ صاحب کو (3) پارے تراویح سنانے کی دعوت دی گئی تھی اُن کو لفافے میں (3) ہزار روپئے دےئے گئے لیکن مسجد کی کمیٹی نے تراویح کے اس اہتمام کا کمیٹی کی جانب سے اخبار میں اعلان کروانے کیلئے (15) ہزار کے اشتہارات شائع کئے تو حیرت سے ہمارا منہ کھلا رہ گیا ۔ حافظ صاحب کو صرف (3) ہزار اور حافظ صاحب کی تراویح کا اعلان شائع کروانے کیلئے (15) ہزار کے اشتہارات ۔
مزید پوچھنے پر پتہ چلا کہ اردو اخبارات عام طورپر تراویح کے اعلانات مفت میں مہینہ بھر شائع کرتے ہیں۔ مگر کمیٹی کے صدر صاحب چاہتے تھے اُن کی مسجد میں تراویح کا اعلان سب سے بڑا اور سب سے نمایاں شائع ہو ۔ اُن کی اس چاہت کی تکمیل کیلئے (15) ہزار روپئے خرچ کرنے پڑے اور مجھے یہ نہیں سمجھ میں آیا کہ آخر کو کمیٹی کے صدر کی گلپوشی کس مسرت میں کی گئی ، نہیں مجھے مسجد کمیٹی کے صدر کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اگر ضرورت ہے تو خود اپنا احتساب کرنے کی۔ کیا میں نے رمضان المبارک کے دوران مسجد کے بڑھتے ہوئے اخراجات چاہے پانی کا اضافی استعمال ہو یا برقی کا بل یا پھر دیگر اضافی اخراجات کی تکمیل کے لئے علحدہ سے کوئی چندہ دیا ہے ؟
میں تو یہ سونچ کر خاموش رہتا ہوں کہ ارے مسجد کی تو بہت ساری ملگیاں ہیں ۔ اتنے سارے لوگ چندہ دیتے ہیں تو مجھے مزید چندہ دینے کی ضرورت کیا ہے اور خود کمیٹی کے صدر صاحب کا کاروبار تو زبردست چلتا ہے اب یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھ لیں ’’یہ اُن کی ذمہ داری کا ‘‘ رویہ ہمارے سماج میں کس قدر تیزی سے سرائیت کرگیا ہے ۔ اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 6 جولائی 2014 ء کو شہر حیدرآباد میں بارش کے لئے نماز استسقاء کا اہتمام کیا گیا ۔ فیس بک پر نوجوان مسلمانوں نے اس بات کی کافی تشہیر کی کہ 6جولائی کو صبح ساتھ بجے نماز استسقاء پڑھی جائے گی ۔ خیر سے نماز کے بعد ہم اسی توقع میں تھے جلد ہی کوئی فیس بک کا مجاہد نماز ادا کرنے کی تصاویر بھی اپ لوڈ کرے گا ۔
نماز سے فراغت کے بعد کافی دیر ہوگئی لیکن کوئی فوٹو سامنے نہیں آئی ۔ ہم نے اپنے ساتھی دوستوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ جن صاحب نے ہمیں فیس بک پر نماز استسقاء میں شرکت کی دعوت دی تھی وہ رات بھر جاگ کر لوگوں کو اطلاع کرتے رہے اور عین فجر کے بعد اُن کی آنکھ لگ گئی اور وہ یوں نماز استسقاء سے محروم رہے ۔ انھوں نے وعدہ کیا وہ اپنے کسی دوست سے فوٹوز لیکر (Share) کریں گے اور صورتحال کچھ اس طرح بن گئی کہ وہ صاحب دوسرے دن اخبار کا انتظار کرتے رہے اور جو کچھ تصاویر اخبار میں لوگوں کو نماز استسقاء پڑھتے ہوئے شائع ہوئی انھوں نے وہی تصاویر ہمیں بھی بھیجا ۔ سب لوگوں نے یہی سونچا کہ صرف اُن کے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ہاں انھوں نے دوسروں کو جانے کے لئے ضرور تلقین کرنا ضروری سمجھا ۔
یہ کیسا مزاج بن گیا ہے ہمارا اور ہماری قوم کا کہ ہم جس کام کو انجام دینا خود کے لئے گراں سمجھتے ہیں ، وہی کام کرنے کیلئے ہم دوسروں کو دعوت دیتے ہیں ، اصرار کرتے ہیں ، یہ کیسا دوہرا مزاج بن گیا ہے میرا ؟ لیکن میں خود اپنا جائزہ لینے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہوں ہاں سامنے والوں پر اُنگلی اُٹھانا اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہوں ۔ میرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ میں قرآن مجید کو بحیثیت مسلمان اپنا دستور حیات تو مانتا ہوں مگر میں نے کبھی بھی اپنے دستور کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی نتیجہ کیا نکلا میں زکوٰۃ کی تقسیم میں بھی قرآن و حدیث کو چھوڑکر اپنے پیمانوں کو استعمال کررہا ہوں۔
اس رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بنگلور سے انگریزی اخبار دی ہندو نے 11 جولائی 2014ء کو ایک خبر شائع کی کہ ایک مالی طورپر پریشان حال مسلم شخص نے اپنی مالی پریشانیوں کو حل کرنے کیلئے اپنی ہی بہن کی سات سالہ لڑکی کا اغواء کرلیتا ہے اور اپنے بہنوئی سے (10) لاکھ روپئے تاوان دینے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ ان پیسوں سے اپنے مالی پریشانیوں کو دور کرسکے لیکن اپنی ہی بھانجی کو اغواء کرنے کے بعد سارے حالات کچھ اس طرح بدل جاتے ہیں کہ پکڑے جانے کا ڈر پیدا ہوجاتا ہے اور پھر ماموں ہی اپنی کم عمر بھانجی کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور اس کے باوجود بھی اندرون دس گھنٹے پولیس کے ہاتھ لگ جاتا ہے ۔
میں اس واقعہ کو زکوٰۃ کے پس منظر میں اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی زکوٰۃ خود اپنے ہی خاندان اور رشتہ داروں میں مستحق افراد کو دینا چھوڑکر وہاں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھے ہیں جو ہمیں جھک کر سلام کرتے ہیں ۔ آگے پیچھے تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں ۔ اگر ہم میں کا ہر ایک مسلمان اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کے ضرورت مندوں اور مستحق افراد کو زکوٰۃ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کرے تو بہت سارے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوسکتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ میں حیدرآباد میں بیٹھ کر غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں فلسطینی صدر محمود عباس پر اور عرب حکمرانوں پر تنقیدوں کے پل باندھونگا کہ اُن کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ معصوم فلسطینیوں کی مدد کیلئے آگے آئیں اور اسرائیلی جارحیت کے سدباب کے لئے آواز اُٹھائیں لیکن میری اپنی ذات خود میرے اپنے خاندان ، محلے اور رشتے داروں میں کتنے لوگوں کیلئے زحمت بنی ہوئی ہے میں اُس حوالے سے بھی غور کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہونگا ؟
ذات کی بات چلی ہے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم لوگ اپنی ذات کے خول میں کس قدر بند ہوگئے ہیں کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جو ہماری دانست میں ہماری ذات کے لئے فائدہ مند ہیں اور ہم دوسروں کے لئے بھی وہی کام پسند کرتے ہیں جو ہمارے لئے خود فائدہ مند نہیں لگتا ہے ۔
اور اس طرح خدائے تعالیٰ سے اپنے تعلقات کی فکر کئے بغیر خالق حقیقی کی ذات کو پہچانے بغیر اپنے بچوں کو دُنیا کی ایک سے بڑھ کر ایک تعلیم دلانے کیلئے پاپڑ بیل رہے ہیں اور ہمارے بچے ہمارا نام کس قدر روشن کررہے ہیں میڈیا میں اس کے متعلق خبریں بھری پڑی ہیں۔ اس مہینے کی 15 تاریخ کو خبررساں ادارے Ind today نے سائبرآباد پولیس کے حوالے سے ایک خبر نشر کی ، پولیس نے ایک 20 برس کے مسلم نوجوان گرفتار کرکے اخباری نمائندوں کے روبرو پیش کیا کہ یہ نوجوان طالب علم کے بھیس میں لوگوں کے لیاپ ٹاپس اور کمپیوٹر کا سرقہ کرنے کا کام انجام دے رہا تھا ۔ پولیس نے اُس کے قبضے سے (16) لیاپ ٹاپس برآمد کرلئے ۔ پولیس کے مطابق یہ مسلم نوجوان خود بھی ایک طالب علم ہے اور شراب نوشی جیسی عادتوں میں ملوث ہے۔
اسی خبررساں ادارے کے حوالے سے 27 جون کو ( پچھلے مہینے ) بھی دو ایسے کم عمر مسلم بچوں کی خبر سامنے آئی تھی جس میں دونوں دوست انٹر سال اول کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور گزشتہ کچھ مہینوں سے خواتین کے گلوں سے سونے کی چین چھین کر راہ فرار اختیار کررہے ہیں ۔ یہی نہیں پولیس نے ان نوجوانوں کے پاس سے ایک بجاج ڈسکور موٹر سائیکل بھی برآمد کی ہے ۔ ان دونوں نوجوانوں کو گرفتار کرکے بنجارہ ہلز پولیس نے عدالت میں پیش کیا ۔ مجرمین کے یہ بدلتے ہوئے چہرے میرے اور آپ کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے اور تشویش تو ہمیں خود اپنے آپ پر بھی ہونی چاہئے کہ اس رمضان المبارک کے دوران بھی ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں ۔
ترقی کا مطلب اگر دین سے اور مذہب اسلام سے دوری کا ہے تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے اور صحیح راستہ کیا ہے ؟ کیا ہم نے خود اور اپنے بچوں کو کبھی بتلایا بھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب ہمیں مسلمان بنایا ہے تو ہماری ذمہ داریوں کو بھی واضح کردیا ہے کہ اب ہم اپنی زندگی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اب کے ہم اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں گذارنے کے پابند ہیں اور ہم سبھی سے روز آخرت اس حوالے سے باضابطہ پوچھ ہوگی ۔
ہمارا کیا حال ہے ہم دنیاء کی فکر میں گم ہیں بظاہر تو یہاں ہندوستان میں بیٹھ کر غزہ پٹی کے محروموں پر آنسو بہارہے ہیں اور خود ہم اپنے اعمال کا احتساب کرنے کے موقف میں نہیں ہیں یا کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔ جب ہم اس بات کا نعرہ لگاتے ہیں کہ دین اسلام سچا مذہب ہے تو ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے اپنے بچوں کو دین کا واقعی مفہوم سکھلایا ؟ کہ اب ہمارا بچہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر کسی بھی طرح کا فیصلہ کرنے سے پہلے رب کی ہدایات کیا ہیں اور رسولؐ کی تعلیمات کیا ہیں دیکھے گا اور تب ہی کہیں جاکر فیصلہ کرے گا ۔
سولی سوراب جی ہمارے ملک کے نامور ترین قانون داں ہیں ان کے متعلق جسٹس کاٹجو نے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے لڑکے روہنٹن ناریمن کو اُس کے مذہب کی تعلیم دلوانا ضروری سمجھا ۔ (12) برس کی عمر میں روہنٹن کو پارسیوں کے مذہبی اسکول میں داخل کروایا گیا ۔ جہاں پر اُن کو پانچ وقت عبادت کرنا اور مذہبی کتاب کے (72) چیاپٹر کو یاد کروایا گیا ۔ مذہبی تعلیم مکمل کرکے سولی سوراب جی کا لڑکا پہلے پارسیوں کے مذہبی پیشوا بننے کی سند حاصل کی اور پھر اُس کے بعد انھوں نے دنیاء کی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کی طرح وکالت مکمل کی اور سولی سوراب جی کے لڑکے روہنٹن ناریمن کا شمار ملک کے نامور اور قابل ترین وکیلوں میں ہوتا ہے ۔
7 جولائی کو روہنٹن نے سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالا ۔ پارسی آتش پرست ہوتے ہیں اور ملک کی ایک اقلیت ہیں ۔ انھوں نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم لازم کر رکھی اور پھر دُنیا میں بھی اُن کی لیاقت کا لوہا مانا جاتا ہے اور ہم مسلمان نہ تو اپنے مذہبی پیشوا اور آئمہ حضرات کو ہی اُن کا مستحقہ مقام دے پائے اور نہ ہی اپنے بچوں کو پکا اور سچا مسلمان بنا پائے ۔ یا الٰہی رحم فرما اور ہمیں دنیا و آخرت میں رسوائی کا سامان بننے سے بچالے ۔
بقول علامہ اقبال ؔ
حسن کردار سے نورِ مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Forgetting core values and self accountability. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں