علم سے اتنی نفرت؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-14

علم سے اتنی نفرت؟

knowledge-is-power
اسلام آباد میں ایک ہی ڈھنگ کی پبلک لائبریری تھی اسے بھی یاروں نے مشرف ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت میں تبدیل کر دیا۔ ۔خدا لگتی کہیے:کیا ابھی بھی آپ کو آئن سٹائن چاہیے جو سرشام کسی ڈگڈگی بجاتے ’’معروف اینکر پرسن ‘‘ کے ٹاک شو میں تشریف فرما ہو کر اس زندہ اور پائندہ قوم کو بتائے کہ اس کی ذلت اور زوالِ مسلسل کی وجوہات کیا ہیں؟
انتہائی تعلیم یافتہ اسلام آباد میں ،عالم یہ ہے کہ، کتا بیں فٹ پاتھوں پر فروخت ہوتی ہیں اور جوتے برقی قمقموں سے آراستہ شو کیسز میں سارے اہتمام سے رکھ کر بیچے جاتے ہیں۔جوتوں سے ہماری اسی محبت نے دنیا بھر کے جوتے ہماری قسمت میں لکھ دیے ہیں۔ایک روز ایسے ہی خیال سوجھا، میں نے سپر مارکیٹ میں مسٹر بکس کے سیلز مین سے پوچھا :کتنے روپوں کی کتاب ہو تو ایک خریدار اسے مہنگی کتاب سمجھتا ہے؟اس نے خاصا سوچ کر جواب دیا :پانچ سو۔ساتھ ہی ایک جوتوں کی دکان تھی،میں نے یہی سوال اس کے سیلز مین سے پوچھا ۔اس نے کہا :صاحب تین ہزار تک کا جوتا مہنگا نہیں سمجھا جاتا،لوگ ہنس کے خرید لیتے ہیں۔میرا تجسس مزید بڑھا، میں نے اراکین پارلیمنٹ سے ،جب بھی ملاقات ہوئی ایک سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ نے آخری مرتبہ کتاب کب خریدی تھی۔ایک انتہائی معروف شخصیت نے یہ سوال سنا تو طویل دورانیے تک قہقہے بکھیرنے کے بعد فرمایا: بی اے کے امتحان کے لیے ایک گائیڈ خریدی تھی چند سال پہلے۔اکثریت کو یاد ہی نہیں تھا انہوں نے یہ ’گناہ‘کب کیا تھا۔
تعلیم ہمارے اہل سیاست کی ترجیحات میں کہیں بھی نہیں ہے۔نیم جاہل سماج میں کسی اہلِ سیاست کو کیا پڑی کہ وہ علم کی دنیا سے رشتہ جوڑے۔جس سماج میں شیخ رشید کی جگتوں سے ریٹنگ بڑھ جاتی ہو اور اہلِ علم کو اجنبی قرار دے دیا جائے،جہاں عامر لیاقت کا طوطی بولتا ہو اور جاوید غامدی اور امین احسن اصلاحی جیسوں کا کسی کو علم ہی نہ ہو۔۔۔اس سماج کی تہذیب پھر کیسے ہو۔چند ماہ قبل میں نے صاحب علم احباب کی مدد سے پورے اہتمام سے ایسے اہلِ قلم کی ایک فہرست بنائی جو ڈھنگ کی بات لکھتے ہیں ، محض گالم گلوچ اور طوطامینا کی کہانیاں سنا کر چاند ماری نہیں کرتی، فہرست تیار ہوگئی تو ہمارے پیش نظر ایک دوسرا سوال تھا: ان اہلِ قلم میں سے کتنے ہیں جو نیم خواندہ سماج میں ’ معروف کالم نگار‘ قرار دیے جا سکتے ہیں؟۔اس سوال کے جواب نے چودہ طبق روشن کر دیے۔کوئی سنجیدہ بات زندہ اور پائندہ قوم کے حلق سے نیچے ہی نہیں اترتی۔سماج کی کسی نے تربیت ہی نہیں کی نہ ہی علمی ذوق کی آبیاری کی گئی ہے۔چنانچہ ایک ہجوم ہے جو لایعنی بڑھکوں اور افسانوں پر بغلیں بجاتا ہے۔علمی رویے کی کوئی تحسین نہیں ہے۔
علم کی ناقدری ہی کا مظہر ہے کہ جب حکومت نے طے کیا مشرف کا ٹرائل کرنا ہے اور عدالت قائم کرنے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی تو حکومت کو ایک عمارت بے کار پڑی نظر آئی۔یہ بے کار عمارت نیشنل لائبریری تھی۔حکومت نے سوچا اس بے کار عمارت کو کسی کام میں لایا جائے چنانچہ وہاں خصوصی عدالت بنا دی گئی۔اب وہاں ہُو کا عالم ہوتا ہے۔ریسرچرز جائیں جہنم میں،تعلیم و تحقیق بھی بھلا کوئی کرنے والا کام ہے۔یہی رویہ کئی سال تک نیب عدالت کے حوالے سے حکومت نے اختیار کیے رکھا۔مشرف دور حکومت میں نیب بنی تو اسلام آباد راولپنڈی میں اس کی عدالت کے لیے جگہ کی تلاش شروع ہوئی۔ حکمرانوں کو کوئی جگہ نہ ملی تو انہوں نے ایک تعلیمی ادارے کے ہاسٹل پر قبضہ کر لیا اور وہاں عدالت قائم کر دی۔بچے احتجاج کرتے رہے اور حکومت احتساب کرتی رہی۔
اساتذہ کو جان بوجھ کر رسوا کیا جاتا ہے۔معلوم نہیں اس کی وجہ کیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے ۔ابھی ڈینگی کی مہم میں سارا نزلہ اساتذہ پرگرتا رہا۔گویا ڈینگی انہوں نے بنائے تھے۔الیکشن کی ڈیوٹی ہو تو حکمرانوں کو اساتذہ یاد آ جاتے ہیں، مردم شماری کرنی ہو تو اساتذہ کو لائن حاضر کر دیا جاتا ہے۔جو رویہ گاؤں کا چودھری کمیوں کے ساتھ رکھتا ہے حکومتیں وہی رویہ اساتذہ کے ساتھ رکھتی ہیں۔علم کی ناقدری کی حد ہوگئی ہے۔پنجاب حکومت برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو توکنسلٹنٹ بنا کر 50لاکھ تنخواہ دیتی ہے لیکن اساتذہ کی اتوار کی چھٹی کے پیسے بھی کاٹے جانے کے پروگرام بن رہے ہیں۔نئی تعلیمی پالیسی کا کہنا ہے کہ چونکہ اساتذہ اتوار کے روز چھٹی کرتے ہیں اس لیے ان کی تنخواہ سے چار دن کے پیسے کاٹ لیے جائیں۔جن تعلیمی اداروں کے نتائج پچانوے فیصد سے کم ہوں ان کے اساتذہ کی سالانہ انکریمینٹس روک لی جائیں۔معلوم نہیں اس تعلیمی پالیسی میں اس طرح کے افلاطونی پہلو کس کے ذہن کی اختراع ہیں لیکن یہ جس کسی کے ذہن کا کمال ہے اسے پہلی فرصت میں کسی اچھے سے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کی انکریمینٹس کیوں نہ روک لی جائیں۔ان کے نتائج کتنے فیصد ہیں۔انہوں نے تو کہا تھا ہم چند ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کر دیں گے، اب کہتے ہیں ہم سے حل نہیں ہوتا۔ یہ تو صفر فی صد نتائج ہوئے۔دہشت گردی آپ سے نہیں رک رہی، ڈالر کی قیمت آپ کے روز کے درجنوں کے دعووں کے باوجود بڑھتی جا رہی ہیں، گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں،گیس غائب ہے، بجلی مل نہیں رہی، ملک کے مسائل کی جڑیں تزویراتی امور میں پیوست سی ہوگئی ہیں اور آپ کے پاس کوئی وزیر خارجہ تک نہیں ہے،وزیر دفاع بھی اس وقت بنایا گیا جب سپریم کورٹ نے طلب کر لیا اور اس طلبی سے بچنے کے لیے جلدی سے یہ عہدہ ایک صاحب کو دے دیا گیا۔اپنی حالت یہ ہے لیکن تعزیر کا کوڑا بے چارے اساتذہ کی پشت پر۔
رحمن ملک سے تو آپ حساب لے نہیں سکے، راجہ رینٹل تک آپ کے ہاتھ پہنچ نہیں سکے، منی لانڈرنگ کے الزامات سے خود حکومت کا اپنا دامن آلودہ ہے، سوئس بنکوں کی دولت واپس لانے کا آپ نے کوئی ایجنڈہ نہیں دیا،ایم بی بی ایس کا خطاب پانے والے وزیر اعظم تک آپ کے آہنی ہاتھ پہنچ نہیں پائے اور آپ کو مل گئے کمزور اور سفید پوش اساتذہ۔کیا بصیرت پائی ہے حکمرانوں نے۔
امید کی جانی چاہیے اساتذہ کی اتوار کے چار دنوں کی تنخواہ کاٹ کر حکومت کو اتنی رقم ضرور مل جائے گی کہ ماضی کی طرح اس بار بھی معزز مرد اراکین پارلیمنٹ اپنے لیے ایسی دواؤں کے بل وصول کر سکیں گے جو ادویات حمل کے دنوں میں عورتیں استعمال کرتی ہیں۔

بشکریہ :
کالم ترکش از: آصف محمود (روزنامہ نئی بات) - علم سے اتنی نفرت؟

Hating the knowledge. Article: Asif Mahmood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں